نازش ہما قاسمی
بہار اسمبلی الیکشن کے تین مراحل مکمل ہوچکے ہیں، باقی دو مرحلوں کے لئے سیمانچل اور متھلانچل کے علاقہ میں ووٹنگ باقی ہے، جہاں سے سیکولر اتحاد کے ساتھ ساتھ بی جے پی بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، سیمانچل کی چھ عدد سیٹوں پر اسدالدین اویسی کی آمد سے کافی حد تک تشویش برقرار ہے، مجلس اتحادالمسلمین نے سیمانچل کی پسماندگی کو اپنا ایشو بنا کر انتخاب میں حصہ لیا ہے، جبکہ سیکولر اتحاد بھی اسی نظریہ کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ بہار اسمبلی الیکشن کیلئے جس طرح ریلیاں نکالی گئی ہیں اور جن جن موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے اس سے پہلے کم از کم بہار میں تو اس طرح کا ماحول کبھی بھی نہیں دیکھاگیا تھا۔بی جے پی نے غیر ضروری باتوں کو ایشو بنا کر جس طرح عوام کے ذہن کو منتشر کرنے کی کوشش کی ہے اس کی مثال بھی موجود نہیں ہے۔
بہار کی گدی حاصل کرنے کیلئے پورے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول بنا دیا گیا،ہر طرف افراتفری کا ماحول پیداکیاگیااورمذہب کے نام پر بھولی بھالی عوام کو بانٹنے کی کوشش کی گئی، گؤکشی اور ریزرویشن کا معاملہ اٹھایا گیا، نتیجہ میں یکے بعد دیگرے کئی لوگ بھیڑیوں کی درندگی کا شکار ہوئے، دادری کا واقعہ ہو یا پھر نعمان اور زاہد کا سب اسی کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے، کشمیر اسمبلی میں مارپیٹ کا واقعہ رونما ہوا، ممبئی میں سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر کالک پوت دی گئی اور اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہوئے لیکن ہماری مرکزی حکومت زبان پر خاموشی کا تالا لگائے بیٹھی رہی۔۔۔ صرف اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ فرقہ پرستی کے خوگر ان تمام واقعات کو درست ٹھرانے میں لگے رہے۔۔۔مرکزی حکومت اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ بہار کو فتح کرنے میں مصروف رہی۔۔۔ملک کے حالات دن بدن بگڑتے رہے اور مہر سکوت کو توڑنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ عام آدمی سے لیکر ایم ایل اے، ایم پی، مرکزی وزیر اور چیف منسٹر کے عہدے پر فائز تمام زہر افشانی کرتے رہے ۔۔۔لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔۔۔مجبور ہوکر ہندوستان کا سیکولر طبقہ میدان میں آیا اور ملک کے دانشوروں اور مصنفین نے تحریک شروع کی ۔۔۔اور اپنے ساہتیہ ایوارڈ کو لوٹانے لگے ۔۔۔جس سے ہندوستانی میڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی۔۔۔ہر طرف سے ہندوستانی جمہوریت پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔۔۔ مودی حکومت پر تھوتھو ہونے لگی۔۔۔ لیکن خاموشی برقرار رہی تو ہندوستان کی مرکزی قیادت میں ۔ عوام میں پھیلی بے چینی اور شرپسندوں کی حرکت حکومت کی نظر میں بے معنی ہوچکی ہے۔خود وزیر اعظم نے جس طرح کی زبان بہار الیکشن کیلئے استعمال کیا ہے یہ کسی بھی طرح اس عہدہ پر فائز شخص کیلئے زیب نہیں دیتا ہے۔ سیکولر اتحاد پر دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کو ہٹا کر مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات کہی گئی ہے۔۔۔ جو کسی بھی طرح عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔۔۔کیونکہ عوام اس انتخابی جملے سے بخوبی واقف ہیں ۔ ان دنوں بہار الیکشن کیلئے ہوئی تمام ریلیاں یا تو دوسرے کو برا کہنے کیلئے منعقد کی گئی ہیں یا پھر عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، امت شاہ کا یہ کہنا کہ اگر عظیم اتحاد جیت گیا تو پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے ان کی ذہنی شکست کوواضح کرتا ہے اور اس جملوں کے سوداگر نے پاکستان کا نام لے کر بہار کے سیکولر عوام کو منتشر کرنے کے لیے آخری پینترابدلا ہے تاکہ ہزیمت سے دوچار نہ ہونا پڑے اسے خوب معلوم ہے کہ اب ہار یقینی ہے لہٰذا اس طرح کے
جملوں سے کچھ ووٹ تو اپنی جھولی میں آ ہی جائیں گے ۔۔۔ لیکن عوام ہشیار ہوچکے ہیں بھلے پٹاخے کہیں بھی پھوٹیں اس سے ہمیں کیاسروکار۔ہمیں تو اس سے مطلب ہے جس نے بہار کو بجلی، سڑک ، پختہ مکانات اور روزگار فراہم کیے ہیں۔۔۔ ہم اسے ہی ووٹ دیں گے تاکہ وہ مزید ہمیں ترقیات کی راہ پر گامزن کرسکے۔
ملک کے موجودہ حالات کسی بھی طرح کنٹرول میں آتے نہیں نظر آرہے ہیں، ایسے میں ہمارے پرائم منسٹر کے غیر ملکی دوروں سے عوام کا نقصان ہی ہے کوئی فائدہ نہیں ہے، وزیراعظم نے غیر ملکی کمپنیوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے مدعو کیا ۔انہیں مخصوص رعایتیں دی گئیں۔ ہر طرح سے لبھا یا گیا لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اب تک کوئی بھی غیر ملکی کمپنی ہندوستان میں خیمہ زن نہیں ہوئی ہے، کوئی بھی کمپنی کسی ملک میں اس وقت تک سرمایہ کاری کیلئے تیار نہیں ہوتی جب تک اس ملک کے اندرونی معاملات درست نہ ہوں، ہمارے ملک میں تو ایسی افراتفری مچی ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا بھی بلکہ مودی جی کے دوست اوبامہ اوران کی وزارت خارجہ بھی چیخ چیخ کر کہنے پر مجبور ہے کہ اب ہندوستان کے حالات پرامن نہیں رہے، اب جبکہ بہار الیکشن ختم ہونے کے قریب ہے اور پورے ہندوستان میں مچی دھوم کا نتیجہ بھی جلد ظاہر ہونے والا ہے، یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا کہ اس پورے کھیل کا فاتح کون ہوگا، لیکن احوال و کوائف اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ بہار کی عوام کو انسانیت نواز اور کچھ کردکھانے والے چیف منسٹر کی ضرورت ہے نہ کہ اسٹیج پر کھڑے ہوکر بڑے بڑے دعوے کرنے والے لیڈران کی، بہار ہمیشہ سے سیکولر ازم کا علمبردار رہا ہے اور اس بار بھی عوام نے اب تک اس روایت کو برقرار رکھا ہے، بہار الیکشن اپنی اہمیت کے باوجود جس طرح پرامن طریقے سے گزر رہا ہے یہ بہار کے عوام کی آپسی محبت کا نتیجہ ہے ورنہ اب تک تو بہار میں دادری جیسے سینکڑوں واقعات ظہور پذیر ہوگئے ہوتے، دوران الیکشن دو بڑے بڑے تہواروں میں جس طرح قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیاگیاہے یہ پورے ہندوستان کیلئے قابل عمل ہے، دسہرہ اور محرم میں عوام کی وسعت قلبی اور محافظین کی تندہی سے کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے، ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیکولر اتحاد کی ضرورت بہار کے عوام کوہے انہیں کسی اور متبادل کی تلاش نہیں ہے، لیکن اگر فیصلہ اس کے برعکس ہوتا ہے تو یہ صرف بہار ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں بسنے والے تمام سیکولر ازم کے علمبردار کیلئے لمحہ فکریہ ہے، اور اس کے بعد ملک کے حالات مزید بگڑیں گے سدھار کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے، اور ملک ناقابل تلافی نقصان کو پہنچ جائے گا جہاں سے واپسی کیلئے ہندوستانیوں کومزید ساٹھ سے ستر سال انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔ کیوں کہ چیزوں کو ٹوٹنے اور بگڑنے میں وقت نہیں لگتا ہے لیکن انہیں سنوارنے اور بنانے کیلئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔اگر سوجھ بوجھ اور صحیح سمجھ سے حق رائے دہی کا استعمال کیا گیا تو بہار سے بی جے پی کے خیمے اکھڑجائیں گے ورنہ بصورت دیگر دادری کشمیر گجرات جیسے واقعہ روزکامعمول بہاری عوام کیلئے ہوں گے۔اب دو اہم مرحلے باقی ہیں اگر جذبات کی رو میں نہ بہتے ہوئے فیصلہ کریں تو جس طرح سے نتیش و لالو نے بہار کو فرقہ پرستی دنگا و فساد سے محفوظ رکھا آگے بھی اڈوانی کی رتھ یاترا اور توگڑیا کی زہرافشانی سے محفوظ رکھیں گے۔
مضمون نگار بصیرت میڈیا گروپ کے نیشنل بیوروچیف ہیں۔ رابطہ: 9322244439)
(بصیرت فیچرس)